Mchoudhary

Add To collaction

کبھی روگ نہ لگانا پیار کا (session1)بقلم ملیحہ چودھری

قسط 14

••••••••••••••••
دوپہر کا وقت تھا سورج کی حد سے زیادہ تیز روشنی سب کو اپنی لپیٹ میں لے رہی تھی،گرمی بھی بہت تھی."ہوائیں نہ ہونے کے برابر چل رہی تھی........گلاس وال سے دونوں طرف کے پڑدوں کے درمیان سے ہلکی ہلکی سورج کی تیز روشنی اندر کی طرف آ رہی تھی.....دوپہر کے دو کا وقت تھا..کمرے میں اے سی کی ہلکی ہلکی ٹھنڈک باہر کے موسم کے بر عکس بہت سکون بخش رہی تھی" کمرے میں اندھیرا تھا.."لیکن سورج کی ہلکی روشنی ہونے کِ باعث اتنا بھی اندھیرا نہیں تھا.....ٹرین ٹرین ٹرین...............ٹرین ٹرین ٹرین............... ٹرین ٹرین ٹرین.........................سائڈ ڈراور پر رکھا موبائل کب سے چنگھاڑ رہا تھا...."لیکن مقابل تو ایسا گدھے گھوڑے بیچ کر سو رہا تھا..."یا شائد سلیپنگ ٹیبلٹ کا اثر تھا.." جو اُسکی نیند ٹوٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی...ایک بار پھر موبائل چنگھاڑا" ٹرین ٹرین ٹرین...............ٹرین ٹرین ٹرین............... ٹرین ٹرین ٹرین......................اب کی بار موبائل کی چنگھاڑ سے اُسکی نیند ٹوٹی..."ایسے لیٹے لیٹے ہی اس نے ڈروار سے موبائل اٹھایا.."اور کان سے لگایا.."ہیلو.."نیند کے خُمار میں ڈوبی آواز گھمبیر لہذا."دوسریجانب سے کیا بولا گیا کچھ پل تو اسکو بلکل بھی سمجھ نہیں آیا تھا.."کیونکہ نیند کا اثر ابھی بھی اُسکی آنکھوں سے صاف نظر آ رہا تھا.."پھر ایک دم ہی اُسکے ذہن میں ابھی فون پر صرفان کے بولے جانے والے الفاظ گردش کرنے لگے....."السلام وعلیکم.." کہاں ہو تم..؟ جلدی سے ہسپتال پہنچو..."اُسکی آواز سے ہی وہ بہت پریشانی چھلک رہی تھی.."جب اسکو سمجھ آیا تو وہ جھٹکے سے اٹھا تھا.."آنکھوں کی نیند پل میں کہیں اُڑن چھوں ہو گئی تھی...."صرفان اتنا پریشان کیوں ہے..؟ کہیں کچھ ہو تو نہیں گیا...؟اس نے اپنے پاس سے ہی انداز لگایا....." وہ جلدی سے بیڈ سے اُترا اور شاور لینے باتھرُوم میں گھس گیا.."وہاں سے وہ قریب پندرہ منٹ بعد نکلا تھا..."اب وہ ڈریسنگ مرر کے سامنے کھڑا اپنے بال سیٹ کر رہاتھا.."سوچو کے تانے بانے مائشا اور اس عورت کے ارد گرد گھوم رہے تھے...."وہ بال سیٹ کرتا کرتا پھر سے کل رات ہونے والی واقعے کو سوچنے لگا.."اس نے دیکھا اُس بلب کی روشنی میں کوئی چالیس یا پینتالیس سال کی عورت تھی۔۔" اُلجھے ہوئے کالے لمبے کمر سے نیچے تک آتے بکھرے بال"ایسا لگتا تھا جیسے کئی سالوں سے ان بالوں کو کنگھا نہیں کیا گیا ہو.."آنکھوں کے ارد گرد کالے سیاہ ڈارک گھیرے.. ہری آنکھیں یہ آنکھ کسی سے ملتی جلتی تھی.."لیکن کس سے..؟وہ ابھی زیادہ سوچ نہیں پایا تھا.."جھریوں جدہ چہرا.."اس عمر میں کہاں آج کے زمانے میں کسی کے چہرے پر جھریاں ملتی تھی.."لیکن اس عورت کے چہرے پر تھی..."پنکھڑی جیسے لب جو ہلکے ہلکے کالے پڑ چکے تھے..."اُسکے جسم اور چہرے پر کچھ چوٹ کے نشان بھی تھے.."ایسا لگتا تھا..""جیسے اس عورت کے چہرے پر کو نشان تھے وہ ہنٹر کے مارنے کے نشان ہو.." یعنی اس عورت کو تشدّد کا نشانہ بنایا گیا ہو.. منہال نے سوچا تھا.."لیکن پھر بھی وہ عورت بہت خوبصورت تھی۔۔"شائد یہ عورت اپنے وقت پر بہت خوبصورت رہی ہوگی.."اس نے خود ہی اندازہ لگایا.."جب اسکو اُس عورت کی آواز سنائی دی..."فائنلی میرا بدلہ جلد ہی پورا ہونے والا ہے.."تم نے مجھ سے میری محبّت چھینی تھی نہ.."میں نے تم سے تمہارا سب کچھ چھین لیا ہے.."سب کچھ۔۔۔۔۔ھاھاھاھا ھاھاھاھاھا...." وہ ایک مکروح ہنسی ہنستی بولی تھی..."تمہارا شوہر،تمہاری بڑی بیٹی چھینی تھی..."اور اب تم اپنی چھوٹی بیٹی سے بھی جلد ہی دور ہو جاؤ گی...."نہ نہ تم یہ مت سوچنا کی میں تیری بیٹی کا قتل کروں گی..." نہ بابا نہ.."بلکل بھی نہیں.."وہ کیا ہے نہ..؟ میں اب بہت اُکتا گئی ہوں روز روز کے ان کاموں سے..."اب کچھ نیا ٹرائی کرنے کو دل کر رہا ہے.."اس لیے سوچا کچھ نیا کریں.."اب میرا بیٹا جلد ہی تیری بیٹی سے شادی کر نے والا ہے..."اور پھر اسکو اتنا درد دیگا اتنا دیگا۔۔کہ خود تیری بیٹی۔۔۔۔"نہیں نہیں تم دونوں لیلٰی مجنوں کی بیٹی خود کُشی کر لینے پر مجبور ہو جائے گی.."یوں تم دونوں کی محبّت کی نشانیوں کا اور تمہارا سب کچھ ختم ہو جائے گا.."ھاھاھاھا ھاھاھاھاھا... وہ ایک بار پھر ہنسی تھی...."جس دن توں کمال شاہ کی زندگی میں آئی تھی اور کمال شاہ نے مجھے ریجیکٹ کر کے تم سے شادی کی تھی..."میں نے اس دن ہی سوچ لیا تھا کہ میں تم دونوں کو کبھی خوش نہیں رہنے دوں گی..."پتہ ہے تیری بیٹی ہے نہ بلکل تُجھ جیسی ہی ہے..."بلکل تیری ہی ٹو کاپی ہے.."وہی نین وہی نقش .."بلکل تیری ہی طرح..."پتہ ہے کیا نام ہے ....؟ تجھے کیسے پتہ ہوگا..؟ اتنے دن ہو گئے اب تو شائد تُو بھول بھی گئی ہوگی ہے نہ....؟ اُسکے اس طرح پوچھنے پر اس عورت نے گرد نہ میں ہلائی تھی.."جیسے کہ رہی ہو نہیں میں نہیں بھولی..."اچھا.....تو بتا کیا نام تھا تیرے شوہر کا.."اس عورت نے اس کمزور سی عورت کے ایک مارتے ہوئے پوچھا تھا.."جس کی وجہ سے وہ ایک جانب دھے گئی تھی..."بول......." وہ بہت تیز گرّائی...."ک کمال شاہ،مدیحہ کمال شاہ اور اور مائشا کمال شاہ"مائشا کا نام سنتے ہی منہال کے پیروں سے زمین کھسک گئی تھی.."آنٹی بیختیار اُسکے لب ہلے تھے...."۔ وہ ڈرتی ڈرتی اپنی زبان سے لفظ ادا کر رہی تھی........."ارے واہ ہ ہ....کیا بات ہے.....؟ ویسے تو ہے بہت ڈھیٹ..." اتنے سال گزر گئے لیکن مزال ہے جو تُو بھولی ہو اپنے مجنوں اور اپنے بچوں کو....."چلو کوئی بات نہیں.
کون سا تیری بیٹیاں اور تیرا محبوب تیرے پاس ہے.." بھئی میں اتنی بھی ظالم بھی نہیں ہوں جو تیرے دل اور دماغ سے تمہارا سب کچھ چھین لوں.."اچھا میں اب چلتی ہوں بہت جلد ملاقات ہو گی.."وہ پلٹی ہی تھی.."توں کون ہوتی ہے مجھ سے میرا سب کچھ چھین لینے والی.."اس رب کِ امانت تھی اس نے لے لی ہے.."اور رہی میرے بیٹی کو نکسان پہنچانے والی تو"مجھے یقین ہے میرا رب اسکو بلکل بھی نکسان نہیں پہنچنے دے گا..."اور میری حالت یہ وقت اور اللہ تعالیٰ پر محنسر ہے.."کیونکہ وقت کبھی ایک سا نہیں ہوتا اور. مجھے پتہ ہے اللہ نے مجھے آزمایا ہے.."اور میں اپنے رب کی اس آزمائش میں ضرور سر خور ہوجاؤنگی..."وہ عورت پر اعتماد سے اس سے بول رہی تھی.."منہال نے جو چیز اُس عورت کے اندر دیکھی تھی."وہ تھی اسکی پُراعتمادی،اللّٰہ پر یقین اور خوف اُسکے چہرے پر کہیں سے کہیں پر بھی نہیں تھا.." ہونننن.."میں بھی دیکھتی ہوں وہ عورت یہ بول کر وہاں سے جانے لگی"اُسکو دیکھ کر منہال ایک۔دیوار سے لگ کر کھڑا ہو گیا.."اور وہ عورت وہاں سے چلی گئی تھی..."منہال جلدی سے اس عورت کے پاس گیا تھا.."اس عورت نے منہال کو حیرت سے دیکھا تھا.."بیٹا آ آپ کون..؟ اس نے سوال کیا تھا.."آنٹی پہلے آپ یہاں سے چلے.."میں آپ کو بعد میں بتاتا ہوں.."اس نے کہا تھا.."لیکن .."آنٹی آپ یہ سوچ لے اللّٰہ نے مجھے یہاں بیجھا ہے.."لیکن ویکین چھوڑے اور چلے میرے ساتھ اس سے پہلے کوئی یہاں پر آئے..منہال نے اس عورت کو سہارا دے کر کھڑا کیا.." اور اس کو کندھوں سے تھامے..."اِدھر اُدھر نظریں گھمائیں ساتھ لے آیا تھا.......اور پھر وہ اس عورت کو اپنے فارم ہاؤس چھوڑ کر آ گیا تھا..."رات کے قریب ساڑھے چھ ہو رہے تھے.."جب وہ گھر آیا تھا..."اس نے سوچ نے کا ارادہ ترک کرتے سلیپنگ دوائی لے کر بیڈ پر آکر لیٹ گیا تھا......وہ اپنی سوچ سے باہر نکلا.."اور کنگھے کو ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ کر اپنا کچھ ضروری سامان لیا.."ایک نظر مرر میں ڈالی تھی.."جہاں سے اسکا عکس نظر آ رہا تھا.."بلیو جینز پر بےبی پنک شرٹ پہنے.." بالوں کو جیلی سیٹ کیے گئے تھے.."نیلی آنکھوں میں ازحد سنجیدگی سموئے۔۔وہ بہت ہی ہینڈسم لگ رہا تھا.."ہمیشہ کی طرح.."وہ اپنے روم سے نکل کر پہلے..."اپنی ماما کے پاس گیا تھا.."السلام وعلیکم ماما.."عائشہ بیگم جو دوپہر کے کھانے کی ہدایت رحیمہ کو دے رہی تھی.."اُنہونے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا.."وعلیکم السلام.."اٹھ گئے تم..."اُنہونے اپنے بیٹے کی طرف دیکھتے پوچھا تھا...." ہاں ماما میں سرفان کے پاس جا رہا تھا.."گڑیاں کہاں پر ہے..؟ اس نے ادھر اُدھر نظریں دوڑائیں پوچھا.."بیٹا وہ تو آفس چلی گئی ہے.."سب ٹھیک تو ہے بیٹا یوں اچانک سرفان کے پاس.."ہاں ہاں ماما سب ٹھیک ہے.."بس اُسکی کال آئی تھی اس لیے جا رہا ہوں.."شاید کوئی ضروری بات کرنی ہوگی.."اچھا.."عائشہ بیگم نے سکون کی سانس کی تھی.."ورنہ اُنکا دل تو گھبرا ہی گیا تھا..."اچھا آپ کیا لیں گے.."کافی یا جوس.." نہیں ماما بس ابھی کچھ نہیں میں سرفان کے ساتھ ہی لنچ کر لوں گا.."آپ میرا انتظار مت کیجئے گا.."وہ جلدی جلدی بولا اور جانے لگا تھا.."لیکن بیٹا مجھے...."ماما آپکو جو بھی بات کرنی ہے شام میں کرتے ہیں نہ.."اب فلحال آپ اجازت دیں.."اوک اللّٰہ حافظ وہ یہ بول کر وہاں سے چلا گیا تھا۔۔۔۔"نہ جانے کیوں پر اسکا دل بہت گھبرا رہا تھا.."ایسا لگ رہا تھا.."جیسے اُس سے کوئی اُسکی بہت عزیز چیز چھیننے والی ہو.."وہ ڈرائیونگ کے رہا تھا.."آنکھوں کے سامنے مائشا کا سر تاپا حسن لہرا رہا تھا.." کانوں میں اُسکے بولے جانے والے الفاظ گونجے تھے...."ب بابا م منہال س سے محبّت ک کرتی ہوں " یہ الفاظ منہال سلمان شاہ کے ڈر کو ختم کر گئے تھے.."اسکو ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے اُسکے کانوں میں امرت گھول دیا ہو.."وہ سکون سے گاڑی ڈرائیو کرنے لگا تھا۔۔۔"لیکن وہ کیا جانتا تھا۔۔جو سکون ابھی اُسکے وجود میں ہے وہ جلد ہی بیسُکونی میں بدلنے والا ہے....."اور جانتا بھی کون ہے آخر اس رب کے علاوہ." ہوتا تو وہی ہے.."جو اللہ تعالیٰ کا حُکم ہوتا ہے.......
**********************
منہال ہسپتال میں آ گیا تھا۔۔"وہ کب سے سرفان کے آفس میں بیٹھا اسکا انتظار کر رہا تھا.."پر وہ ہے کہ آ کر ہی نہیں دے رہا تھا.."وہ بڑ بڑا تے ہوئے کھڑا ہو گیا.."پتہ نہیں کب سدھرے گا۔۔۔"وہ اس سے پہلے دروازہ کھولتا.." دروازہ کُھلا اور سرفان اندر آتا نظر آیا.." کیا ہے..؟ مجھے یہاں بلا کر.."اپنے آپ محترم غائب ہو گیا.."کیوں بلایا ہے..؟ وہ بگڑے تیور لئے بولا..."سرفان نے اسکو دیکھ کر ایک لمبی سانس کھچی اور پھر اُسکی اور دیکھتے بولا..."توں مائشا سے محبّت کرتا ہے...؟اُسکی بات کو سن کر منہال نے نہ سمجھی کے عالم میں اسکو دیکھا.."یا پھر سمجھتے ہوئے بھی انجان بننے کی کوشش کر رہا تھا..."کیا پوچھ رہا ہے..؟ مائشا کا کیا ذکر یہاں پر.." میں نے پوچھا توں اُس سے محبّت کرتا ہے...؟آج سرفان صاحب کچھ زیادہ ہی سیریس تھے...." لیکن توں پوچھا کیوں رہا ہے..؟ ہاں یا نا....چلو تم مت بتاؤ.."لیکن میں تمہیں جو بتانے جا رہا ہو.."اسکو دھیان سے سنو.."مائشا کمال شاہ تم سے محبّت کرتی ہے..."اور وہ بھی بےانتہا..."اتنی کہ آج وہ تمہاری محبّت کی وجہ سے زندگی اور موت کے درمیان ہے.."اُسکی بات کو سن کر منہال لڑ کھڑایا تھا.."اس نے جلدی سے چیئر کا سرا پکڑ لیا تھا.."ورنہ وہ گیر جاتا.."ک کیا ہوا م مائشا کو..." اور ت تم مجھے اب بتا رہے ہو..."ک کہاں پر ہے..؟ اُسکی زبان ٹوٹ ٹوٹ کر لفظ ادا کر رہی تھی..." اُسکی حالت کو دیکھ کر سرفان کو ایک لمحہ نہیں لگا تھا.."اُسکو سمجھنے میں...."منہال کیا ہوا سنبھالو خود کو..."بتا کیوں نہیں رہے تم بتاؤ نہ کیا ہوا مائشا کو...؟اب کی بار وہ پوری طاقت سے چلّایا.."پہلے تم یہاں پر بیٹھو.."اور یہ پانی پیو..."پھر بتاتا ہوں.."سرفان نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسکو چیئر پر بٹھایا."اور اُسکی طرف پانی کا گلاس بڑھاتے ہوئے وہیں اُسکے سامنے سٹول پر بیٹھتے ہوئے کہا تھا.."منہال نے ایک دو گھونٹ پانی پی کر گلاس کو ٹیبل پر رکھ دیا۔۔"اور اُسکی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا.."جیسے پوچھ رہا ہو کہ اب بتاؤ.."سرفان نے مائشا کی ساری کنڈیشن منہال کے سامنے رکھ دی تھی..."اور پھر وہاں توڑی دیر کے لیے پورے روم میں خاموشی چھا گئی.. اس خاموشی کو سرفان نے توڑا تھا"منہال جو مائشا کی حالت ہے.."مجھے ایسا لگتا ہے."جیسے اسکو تمہاری بہت ضرورت ہے.." اکثر ایسا ہوتا ہے.."کہ جب مریض کو کوئی حد سے زیادہ عزیز ہو.."اور وہ اُسکے پاس نہ ہو."یعنی وہ اُسکے نہ ملنے کی اُمید چھوڑ دے۔۔اور اُسکی حالت ایسی ہو جائے."جیسی اب مائشا کی ہے تو۔۔۔۔"مریض جینے کی اُمّید ہی چھوڑ دیتا ہے..."اور مجھے ایسا لگتا ہی جیسے مائشا نے بھی جینے کی اُمّید چھوڑ دی ہے۔۔۔" وہ جینا نہیں چاہتی.."جب تک تم اسکو یہ احساس نہ دلاؤ.."اگر ایک بار اسکو یہ احساس ہو گیا نہ کہ تم اسکو اپنے آپ سے دور نہیں ہونے دوگے....ہو سکتا ہے وہ اپنے آپ کو ریکور کر لے۔۔۔"منہال وہ لڑکی ہے.."لڑکی چاہے کتنی بھی مضبوط ہو لیکن وہ کبھی خود سے اپنی محبّت کا اظہار اپنی فیملی کے سامنے نہیں کرےگی.." اور مائشا جیسی لڑکی تو بلکل بھی نہیں..."مائشا کو میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے منہال "وہ لڑکی خود مر جائے گی.."لیکن کبھی اپنی فیملی سے اففف تلک نہیں بولے گی..."تمہیں پتہ ہے.."جب اُسکے بابا کا ایکسڈنٹ ہوا تھا"اور انکی ڈیتھ ہو گئی تھی.."جب وہ پورے دس دن بیہوش رہی تھی.."جو کنڈیشن آج ہے نہ.."یہی حالت اُسکی اب سے دو سال پہلے تھی...کیونکہ تب بھی میں ہی اسکا علاج کر رہا تھا.."لیکن تب اُسکی ساتھ یہ پہلی بار ہوا تھا."تو وہ جلد ہی ٹھیک ہو گئی تھی.."لیکن اب کوئی چانسز نہیں ہے.."صرف ایک اس کے علاوہ "اور باقی اللّٰہ کو پتہ ہے...."اس نے منہال کی طرف دیکھا..."لیکن میں کیسے..؟وہ بظاھر تو لگ رہا تھا جیسے وہ خود کو سمبھال چکا ہے.."لیکن اندر ہی اندر اسکو رونے چلّانے اور اللھ سے شقوے کرنے کا دل کر رہا تھا.."اسکا دل خون کے آنسوں رو رہا تھا.."وہ ٹوٹ چکا تھا.."وہ تُجھ سے محبّت کرتی ہے..."اور اب اسکو تیری ضرورت ہے.."تم میرے ساتھ چلو.."سرفان یہ بول کر کھڑا ہو گیا.."اور اسکو اپنے ساتھ چلنے کا کہا تھا..."لیکن اگر میں ایسے گیا تو شائد میری وجہ سے اسکو رسوائی ملے..."میں نہیں چاہتا کوئی اُس پاک دامن کے اوپر کیچڑ اچھالے..ہاں یہ بھی تم نے بلکل درست کہا۔۔۔ایک کام کرو تم یہ ماسک لگا لو.."سرفان نے اُسکو ماسک تھماتے کہا تھا.."اور اُسکو لیے اس روم میں آ گیا تھا جہاں مائشا کا علاج جاری کیا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔
**********************
دادو آج پھر جائے نماز پر بیٹھی اللّٰہ سے دعا کر رہی تھی..."انکی صرف ایک ہی دعا تھی.."اللّٰہ میری بچی کو کو ٹھیک کر دیں..."جب دروازہ کھول کر رحیمہ اندر آئی..."بی جان لندن سے بڑے صاحب کا فون ہے..."وہ دادو کے سامنے فون کرتی بولی.."دادو نے دعا کے ہاتھ اپنے چہرے پر پھیرے اور موبائل کو تھامتے رحیمہ کو جانے کا اشارہ کیا..."السلام وعلیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ.."اُنہونے سلام کی تھی...."احسان صاحب کیسے آج یاد کر لیا..؟" مجھے تو اب لگنے لگا تھا کہ شائد آپکی نظروں میں ہم سب بھی مر گئے ہیں..."اُنہونے چھوٹتے ہی طنز کے تیر چھوڑے تھے..."دوسری طرف سے نہ جانے کیا کہا گیا تھا"جب رکسانہ بیگم بولی تھی.." احسان صاحب "آپ نے بلکل بھی ماضی میں اچھا نہیں کیا.."آپ ایک نہایت ہی بے رحم اور پٹھر دل انسان ہے.."پہلے ایک بیٹے کو خود آپ نے ہم سب سے دور کر دیا..' اور پھر یہاں سے لندن چلے گئے.."یہ جانتے ہوئے بھی کہ ابھی آپکے بچّے چھوٹے ہے"ہم سب کو آپکی ضرورت ہے.."لیکن نہیں آپ کو کبھی یہ احساس نہیں ہوا.."کیونکہ احساس تو اُن لوگوں کو ہوتا ہے نہ"جن میں دل ہو.."جب آپ میں دل ہی نہیں ہے تو احساس بھی آ پکو کیسے ہو گا.."اور پھر میرا بچّہ......"وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی.." جس نے آپکے ہر حکم کی تعمیل کی.."آپ اپنی خودغرضی اور انا کے وجہ سے اُسکے انتقال پر بھی نہیں آئے..."اس لیے کہ ایک بیٹے نے آپ کی بات نہیں مانی۔۔۔"کتنے بے رحم ہے آپ..."آپکے اس اقدام سے کئی لوگوں کی زندگی تباہ ہو کر رہ گئی ہے..."میں کبھی آپکو معاف نہیں کرونگی بلکل بھی نہیں..."ایک ماں کا دل دکھایا ہے اپنے..."رکسانہ بیگم عرف دادو وہیں جاۓ نماز پر بیٹھ کر رونے لگی تھی..."ایک بار پھر ماضی دہرایا جا رہا تھا...."یا رب العالمین تُو اپنا رحم فرما.."اُنکے ہاتھ سے موبائل چھوٹ کر نیچے فرش پر گر گیا تھا...' یا میری مائشا کو بلکل ٹھیک کر دیں....."بڑی بی جانِ بڑی بی جانِ....." رحیمہ دوڑتی ہوئی اُنکے پاس آئی تھی..."اُسکے ہاتھ میں کچھ تھا..."دادو نے اُسکی طرف سوالیہ نظروں سے پوچھا... رحیمہ یہ تمہارے ہاتھ میں کیا ہے...؟بڑی بی جان یہ مائشا بی بی جی کِ روم سے ملی ہے ہمکو..ہم اُنکے روم کی صفائی کر رہے تھے جب ٹیرس پر ہم کو یہ پڑا ملا.."ہم اس کو آپ کے پاس لے آئے...."اچّھا..."ذرا دکھائے.. رحیمہ نے دادو کو ڈائری دے دی تھی.."اور وہاں سے چلی گئی...."یہ تو کوئی ڈائری لگتی ہے.."پر یہ ٹریس پر کیوں پڑی تھی..."دادو پُر سوچ انداز میں خود سے مخاطب ہوئی تھی....السلام وعلیکم دادو.."نور نے کمرے میں آ کر دادو کو سلام کی.."وعلیکم السلام .."دادو نے اُسکی سلام کا جواب دیا..."دادو مائشا گڑیاں ابھی تک اکیڈمی سے نہیں آئی کیا....؟تم کب آئی بیٹا.."دادو نے اُسکی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا تھا.."بس ابھی آئی ہوں..."کیا بات ہے دادو آپ پریشان لگ رہی ہے..؟سب ٹھیک تو ہے..؟ نور نے دادو کے چہرے پر پریشانی کے آثار دیکھ لیے تھے .."اس نے فکرمندی سے دادو کے چہرے کو دیکھتے پوچھا تھا..."اور دادو یہ آپ نے کیا پکڑا ہوا ہے.."اُسکی نظر دادو کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی ڈائری پر گئی.."دکھائے کس کی ہے یہ ڈائری..."اب وہ دادو کے ہاتھ میں سے ڈائری کو لیتے اسکو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگی تھی...." پھر غور سے دیکھنے پر اُسکے دھیان آیا تھا.."یہ تو گڑیاں کی ڈائری ہیں.."یہ یہاں کیا کے رہی ہے....؟اس نے کئی بار مائشا کو اس میں کچھ لکھتے دیکھا تھا....."لیکن اس نے اس ڈائری کے متعلق پوچھا کچھ نہیں تھا مائشا سے.."اب دادو کے ہاتھ میں یہ ڈائری دیکھ کر اسکو حیرانی نے آ گھیرا تھا..."نور نے ڈائری کا پہلا پنّا کھولا ..اور اسکو پڑھنے لگی..."جیسے جیسے وہ ڈائری کو پڑھ رہی تھی..."اُسکی آنکھوں سے آنسوں خو بخود نکل آئے تھے....."جب اس نے آخری پیج کو پڑھنے کے لئے پلٹا.."اور اسکو پڑھنا شروع کیا..."اُسکے ہاتھ کانپنے لگے.."آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی ٹوٹ پڑی...."اس نے بے یقینی سے دادو کی طرف دیکھا.."دادو بھی اُسکے اور ایکسپریشن کو دیکھ رہی تھی.."دادو نے نور سے پریشانی اور حیرانی کو لئے پوچھا.."نور بیٹا.."ایسا کیا ہے..؟ اس میں..؟دادو آپ لوگ کیسے اتنے ظالم ہو سکتے ہیں..؟ایک بچی نے اتنا کچھ سہا اور آپ لوگوں نے کچھ بھی نہیں کیا...؟اور کتنا درد دینا باقی رہ گیا اسکو .."ہاں.......؟ کیوں ہر بار اسکو ہی درد ملتا ہے کیوں....؟اور اب آپ لوگ اُسکے بغیر مرضی کے اُسکی شادی ایک ایسے شخص سے کروانے جا رہے ہیں.."جس نے اُسکے ساتھ............"اس سے پورے الفاظ بولے نہیں گئے تھے.."اس لیے سختی سے اپنے لبوں کو بھینچ لیا تھا....دادو اُسکی بات کا مطلب سمجھتے ہی ایک دم لڑکھڑائے...."کیا........؟
*************************
وہ جیسے ہی روم کے اندر آیا"سامنے مائشا کو مشینوں میں جکڑے ہوئے وجود کو دیکھ کر اُسکی آنکھوں سے دو موتی ٹوٹ کر اُسکے رخسار پر گر گئے تھے... وہ مرد تھا..کہتے ہیں مرد روتے ہوئے اچھے نہیں لگتے.."اور بہت سے لوگ تو یہ بھی بولتے ہے.."کہ وہ مرد ہی نہیں جو اپنی مردانگی کا رُعب نہ دکھائے.."لیکن میرا ماننا ہے"اصل مرد وہ ہے "جس کے اندر کسی کی تکلیف محسوس کرنے کی صلاحیت ہو.."جو ایک عورت کی عزت کریں.."اپنوں کا ہر سُکھ دکھ میں ساتھ دیں...بلکہ دوسروں کا بھی"جو اپنی بیوی کی عزت کریں..."اسکو معاشرے میں عزت دلائے۔۔نہ کی اسکو ذلیل کریں.."وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا.."اُسکے پاس آیا تھا........"اور پھر پاس پڑے سٹول پر بیٹھ گیا..."اور اُسکے مشین میں جکڑے ہوئے ہاتھ کو اپنی آہنی گرفت میں مضبوطی سے تھام لیا......" مایو.."منہال کی جان....!تم اکیلی نہیں ہو..میں تمہیں کہیں پر بھی نہیں جانے دوں گا......"تم میری رگوں میں خون بن کر دوڑتی ہو.."پھر کیسے تم نے سوچ لیا کہ میں تمہیں خود سے دور ہونے دوں گا...."کیسے...؟ تم مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتی..." ابھی تو مجھے تم کو اپنے نام بھی کرنا ہے..."ایک نئی زندگی کی شروعات بھی کرنی ہے..." پھر تم اکیلی کیسے جا سکتی ہو....."تمہیں جینا ہو گا..."میرے لیے..."اپنی ماما کے لیے اپنی بہن کے لیے..."اور اُن سب کے لیے جس نے تمہیں تمہارے بابا سے دور کیا ہے...."ہاں زندگیِ منہال.."تم کو جینا ہو گا...."ہم سب کے لیے......"اُسکی برداشت جواب دے گئی تھی..."وہ اُسکے ہاتھ پر سر رکھے زارو قطار رونے لگا..." اُسکے لیے سوہان روح تھا مائشا کو ایسی حالت میں دیکھنا...."اس سے تو جب بھی اس لڑکی کی تکلیف برداشت نہیں ہوئی تھی.."جب اس کا اس سے کوئی رشتہ بھی نہیں تھا..."اور اب "اب کیسے اس کی تکلیف کو برداشت کر لیتا..."جب اسکا اس کے ساتھ محبّت کا رشتہ تھا..تو اب کیسے برداشت کر سکتا تھا..."اُسکے وجود کا ہر انگ دعا گو تھا.."کہ اللھ اُسکی مائشا کو بلکل ٹھیک کر دیں..."اور اُسکی دعا پر اللّٰہ نے کن بول دیا تھا..."اس رب کے پاس کوئی کمی تھوڑی ہے.."وہ تو صرف اپنے بندے کو آزماتا ہے..."کسی کو دے کر."تو کسی سے لے کر...."اور جب بندہ اپنی آزمائش میں سرخور ہو جاتا ہے تو..."۔ اسکو وہ نوازتا ہے.."جس کا بندے کو گمان بھی نہیں ہوتا...کسی نے بلکل صحیح کہا ہے"محبّت اور دوستی میں جب ایک بار شدّت آ جائے تو وہ مقام انسان کسی دوسرے کو دے ہی نہیں سکتا،اسکا ریپلیسمنٹ کوئی نہیں ہوتا۔۔"اور ایسا ہی مائشا کے ساتھ ہوا تھا.."اُسکی محبّت نے کب کی شدّت اختیار کر لی تھی.."تو وہ کیسے اپنی محبّت کی جگہ کسی اور کو سونپ دیتی۔۔۔۔۔تبھی تو وہ آج زندگی اور موت کے کش مکش میں تھی......"اسکو ایک گھنٹے سے زیادہ اس پوزیشن میں بیٹھے ہوئے ہو گیا تھا..."جب اسکو اپنے چہرے کے نیچے کچھ ہلتا محسوس ہوا.."اس نے جھٹکے سے سر اٹھایا تھا..."اور دیکھا مائشا کی انگلیوں نے حرکت کی تھی...."اُسکے لیے یہ خوشی کس باعث تھا..." ش شعری دیکھ مایو کو ہوش آ رہا ہے..."اس نے سرفان کو بتایا..."سرفان نے مائشا کو دیکھا..."اور پھر منہال کی طرف دیکھا.....منہال کا پورا وجود اللّٰہ کا شکر ادا کر رہا تھا..."منہال میں نے آج تک صرف معجزے کے بارے میں سنا ہی تھا.."لیکن آج دیکھ بھی لیا...."ہم لوگوں نے تو اُمّید ہی چھوڑ دی تھی...."دیکھو اللّٰہ نے تمہاری دعا سن لی اور اب اللّٰہ کے کرم سے بلکل خطرے سے باہر ہے..."صرفان نے مائشا کو چیک کرتے منہال سے کہا تھا.."ہاں۔۔"وہ بس اتنا ہی بولا.."اور پھر وہاں سے اٹھ کر جانے لگا..."کہاں جا رہے ہو......؟ سرفان نے پوچھا.."تم مجھے مائشا کی ہر ایک رپورٹ بتاتے رہنا..."میں بعد میں ملتا ہوں.."وہ ایک نظر مائشا پر ڈالے وہاں سے چلا گیا تھا........اب جو کرنا تھا منہال نے کرنا تھا..."بہت سے راج کھلنے والے تھے ۔۔۔۔۔جو ماضی میں ہوا اب اُسکا حساب لینے کا وقت آ گیا تھا....."کیا سب یقین کر پائینگے منہال کا.."یہ وقت ہی کے نظر ہے۔۔
**********************
وقت کا کام ہے گزرنا سو گزر ہی گیا..."وہ اپنے بابا کی ڈائری ہاتھ میں پکڑے بابا کی یاد کو تازہ کر رہی تھی...."اُسکے بابا اُس سے کہتے تھے..."بیٹا جب کبھی تم بہت پریشان ہو اور تمہیں لگے کی تمہاری سوچنے کی صلاحیت مفلوس ہو چکی ہے.."اور تم سفر کے اس مقام پر ہو جہاں سے واپس ہونا بھی ناممکن ہے تو..."یہ ڈائری.."جو میں آج دے رہا ہوں۔۔اس کو پڑھ لیا کرنا۔۔۔۔لیکن بابا مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے.."جب آپ میرے پاس ہے.."تو میں اس ڈائری کو کیوں پڑھوں..." اس نے معصومیت سے آنکھیں پٹپٹائے اپنے بابا سے کہا تھا.......لیکن پرنسز میں ہمیشہ تو آپکے پاس نہیں رہ سکتا...."کیا پتہ کب اللّٰہ کے گھر سے میرا بلاوا آ جائے.."اور مجھے اللہ کے پاس جانا پڑ جائے...."کمال شاہ نے دل پر پتھر رکھ کر یہ بات اپنی شہزادی سے کہی تھی..."بابا آپ ایسی باتیں مت کریں...."وہ بس اتنا ہی بولی اور خاموشی سے ڈائری کو تھام لیا تھا......."بابا........."وہ ڈائری کو سینے سے لگا کر رونے لگی.... اسکا ماضی کیا تھا۔۔۔۔۔" غم میں ڈوبا ایک جہاں تھا۔۔۔۔جس کو وہ چاہنے کے باوجود بھی نہیں بھول پاتی تھی"مائشا کمال شاہ نے جب سے ہوش سنبھالا تھا اپنی زندگی میں ہمیشہ کسی نہ کسی کی کمی محسوس کی تھی...." پہلے ماما کی،پھر بابا اور ماما دونوں کی اور اب "اب منہال کی..."اسکا دماغ بغاوت پر اترنے کو مچل رہا تھا..." اور دل "دل خاموش اختیار کر نے کو..."ذہن میں کئی سوال مچل رہے تھے....."لیکن انکا جواب اُسکے پاس نہیں تھا....."وہ بظاھر تو بلکل ٹھیک لگ رہی تھی..."لیکن اندر سے وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی...."اسکو ہسپتال سے آئے دس دن گزر گئے تھے..."شادی کی تاریخ کو آگے بڑھا دیا گیا تھا..."اس نے خاموشی کا لبادہ اوڑھ لیا تھا..."اپنا کام کرتی اور بابا کی ڈائری کو سینے سے لگا کر پوری پوری رات رونے میں گزار دیتی."لیکن کبھی کھولنے کی زحمت نہیں کی اُس نے ڈائری کو"آج کل اسکو اپنے بابا کی یاد بہت آ رہی تھی...."بابا کی یاد آتے ہی و رونے لگتی اور پھر وہی روتی ہوئی سو جاتی...."لیکن اس نے اپنا غم کسی کو نہیں بتایا تھا..." صرف اللہ کے علاوہ...."آج اس نے ہمت کرکے ڈائری کا پہلا پنّا کھول ہی دیا... "جہاں پر بہت ہی پیاری رائٹنگ میں لکھا تھا" السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاة 
....شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے..."
أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ
بیشک اللّہ کے ذکر میں دلوں کا سکون ہے -
(القرآن) ** 
انسان جب کسی بھی نیک عمل کو کرنے کو تیار ہو جاتا ہے تو شیطان اُس کی راہ کہ ہر ممکنہ دروازے پہ پہریدار بن کہ رکھوالی شروع کر دیتا ہےمسئلہ تب نہیں ہوتا "میری پرنسز "جب شیطان کھڑا ہوجاتا ہے کیونکہ یہ تو اُس مردود کا کام ہے
مشکل تب پیدا ہوتی ہے پُتر جب انسان کا نیکی کی طرف بڑھتا قدم یہ سوچ کر رُک جاتا ہے کہ شیطان رکاوٹ ڈالے گااسلئے کبھی یہ سوچ کر اپنے قدم نہ روکنا کہ شیطانی رکاوٹیں راہ مشکل کر دیں گی بلکہ یہ سوچ کر ثابت قدم رہنا کہ جس نے اپنی حفاظت میں کھڑا ہو جانے کی توفیق دے دی ہے وہ آگے بھی ہر قدم پہ حفاظت کرتا ہوا منزل پر پہنچ جانے کی توفیق دے گا۔۔۔اس ڈائری میں اس طرح لکھا گیا تھا۔۔" جیسے خود اُسکے بابا اُسکے سامنے بیٹھ کر اسکو سمجھا رہے ہو.."اُسکی آنکھوں سے کئی موتی ٹوٹ کر ڈائری کے پنّے پر اپنا عکس چھوڑ گئے تھے..."اس نے اپنے بابا کے لکھے ہوئے پر بہت پیار سے ہاتھ پھیرا تھا..."اور پھر اسکو لبوں سے چھوا تھا...." بابا......."اس نے اگلا پنّا کھولا تھا..."جہاں پر "ذہنی اُلجھن "کے نام سے بڑی سی ہیڈنگ تھی۔۔۔
بیٹا اگر تم پر کبھی یہ وقت آ جائے.."جس میں تم پریشان رہنے لگو۔۔دل میں اُلجھن ہو۔۔کئی سوالات ہو۔جن کے جواب تلاشنے ہو۔۔ہے چینی ہو اضطرابی ہو۔۔۔عجیب کشمکش میں مبتلا ہو جاؤ۔۔تب کہیں الجھوں مت۔۔۔۔بلکہ خود کو سلجھاؤ۔اکیلے ہو جاؤ کچھ وقت کے لئے۔۔اور ڈھونڈو دل میں مچلتے ہوئے سوالوں کے جواب۔۔پہلے اپنے رب سے دعا کرو۔۔پھر خودکلامی کرو۔پھر بلکل ہی پرسکون ہو کر خاموش ہو جاؤ..تمہیں ہر سوال کا جواب مل جائے گا۔۔کیونکہ اس پل کوئی بشر نہیں۔۔بلکہ بشر کا خالق تمہارے ساتھ ہو گا اور تمہارے ذہن کو الجھانے والے سوالوں کو مٹا دے گا......انشاءاللہ۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی ہر لفظ کی ساتھ سیسکی بندھ رہی تھی...." بابا آپ جانتے تھے کہ آپکی گڑیاں بھی کسی دن ذہنی اُلجھن میں گھر جائے گی.."جس کو نکالنے میں کوئی اپنا بھی مدد نہیں کرے گا...." اس لیے آپ نے میرے لیے یہ ڈائری چھوڑ کر چلے گئے...."سچ میں بابا آپ وہ ہے.."جس کی تمنّا دنیا کی ہر بیٹی کو ہوتی ہے..."لیکن اللہ نے نوازا مجھے ہے..."آپ تھے.."جب بھی میں بہت خوش تھی..."بس ایک چھوٹی سی اُداسی تھی کہ کاش میری ماں بھی ہوتی.."میں بھی اپنی ماں کو دیکھتی۔۔"اُن کی گود میں سر رکھ کر اپنا ہر دکھ سکھ اُن سے شیئر کرتی...."وہ بھی آپکی محبّت توجہ نے میری اس اُداسی کو ختم کر دیا تھا...."اور آج آپ میرے سامنے نہ ہو کر بھی میرے پاس ہو..."میرے سر پر آپکا ہاتھ کا سایہ ہے۔۔۔۔"اور اس سے زیادہ خوشنصیبی کیا ہوگی کہ آپکے ہاتھوں کی چھاؤں میں آج بھی محسوس کرتی ہوں... وہ ڈائری کو بند کر رہی تھی"جب اسکی نظر کچھ الفاظوں پر پڑی۔۔۔۔۔۔کیا خوب لکھا تھا۔۔۔۔۔اُن الفاظوں سے اُسکے وجود کو جینے کا نیا طریقہ مل گیا تھا۔۔۔
میری چھوٹی سی گڑیاں۔۔۔۔۔۔۔۔اس کو جرور پڑھنا۔
بیٹا ..."اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں...!"اے ابن آدم ایک تیری چاہت ہے اور ایک میری چاہت ہے پر ہوگا وہی جو میری چاہت ہے پس اگر تونے سپرد کر دیا خود کو اس کے جو میری چاہت ہے تو میں بخش دوں گا تجھے وہ بھی جو تیری چاہت ہے اور اگر تونے نا فرمانی کی اس کی جو میری چاہت ہے تو میں تھکا دوں گا تجھے اس میں جو تیری چاہت ہے اور پھر ہوگا وہی جو میری چاہت ہے...."بیٹا میں نہیں جانتا میں تمہیں سامنے بٹھا کر سمجھا پاونگا بھی نہیں.."اس لیے اس ڈائری میں لکھ رہا ہوں۔۔۔۔۔تم کبھی بھی اللّٰہ کو مت چھوڑنا "پھر چاہے تمہیں اُس رب کے لیے اپنی کتنی بھی عزیز ترین چیز چھوڑنی پڑے۔۔کیونکہ اگر اللہ کو چھوڑ دو گے تو کوئی چیز ہاتھ نہیں آئے گی.جہاں اتنا صبر کیا ہے وہاں تھوڑا صبر اور صحیح."پھر دیکھو جو اب تک تمہارے نصیب کا حصّہ نہیں تھا۔وہ بھی تم تک پہنچا دیا جائے گا. غم مت کرنا کیونکہ اللہ تمہارے ساتھ تھا ،ہے اور ہمیشہ ہی رہے گا۔ایک ہار پے اُس فتح کو بھول گئے ہو جس سے اللّٰہ نے تمہیں ہمکنار کیا ہے..؟اس کی رحمتوں کو یاد کرو اور ذہن نشین کر لو کی ہمارا رب ہر شے پر کامل ہے۔۔۔۔جو ہمارے لیے ناممکن ہے "وہ اس پاک زات کے لیے چٹکیوں کا کھیل ہے......"صحیح کہا بابا اپنے۔۔!میں دنیا کی ہر شے اس رب کے لیے قربان کرنے کے لئے تیار ہوں..." میں منہال کو بھول جاؤں گی.."میں بھول جاؤں گی.." کہ کوئی منہال نامی شخص سے بھی میں کبھی ملی تھی..."میں اپنے رب کی چاہت پر دل سے خوش ہوں.."اگر میرا رب یہی چاہتا ہے نہ"کہ میں شاہزیب سے نکاح کروں تو ٹھیک ہے...!میں کر لونگی نکاح......لیکن بابا میں محبّت کبھی نہیں کر پاؤنگی .."کیونکہ اس دل میں محبّت میرے اللّٰہ نے ڈالی ہے منہال کے لیے......اب یہ دل اُجڑ تو سکتا ہے۔۔۔۔لیکن اور کسی سے بھی دوبارہ محبّت نہیں کر سکتا...."اس نے ڈائری کو بند کر کے سینے سے لگاتے اپنے بابا سے ہمکلام تھی...."کئی موٹی ٹوٹ کر اُسکے رخسار پر بہ گئے تھے......"اس کو صبر کرنا تھا .."صرف اور صرف صبر.."مائشا نے ڈائری اپنے ٹیبل پر رکھی اپنے آنسوؤں کو پوچھا اور گھڑی میں وقت دیکھا جہاں گھڑی کی سوئی چار بجا رہی تھی..."یعنی عصر ہونے میں ابھی ایک گھنٹہ تھا.."وہ اٹھی اور وضو کرنے باتھرُوم میں چلی گئی۔۔۔اپنے اللّٰہ کا شکر کرنا تھا اُسے..نوافل ادا کرکے..."کیونکہ اس پاک زات نے اسکو بھٹکنے سے پہلے ہی سیدھا راستہ دکھا دیا تھا.......
*************************
یہ نظارہ ہے سویزر لینڈ کے سب سے بڑے شہر زیورخ کا.."زیورخ شہر میں پہاڑوں کے درمیان جھیل گھاٹیوں کے کنارے مشہور گلیشیئر ہوٹل کا۔۔۔برف سے ڈھکی چاروں طرف پہاڑ، تیز ہوائیں،خوبصورت سا ناظارہ دیکھنے میں ایسا لگتا جیسے جنّت میں آ گئے ہو..."ڈوبتے سورج کی نارنجی کرنیں اس نظارے کو اور خوبصورت بنا رہی تھی..."وہ ہوٹل کی گلاس وال سے باہر کا یہ نظارہ دیکھ رہا تھا..."ایسی جگاہوں کو دیکھنا اُسکا معمول تھا..." نہ جانے وہ کیا تلاشتا تھا ان جگاہوں میں"ZM" سر ہم کو "ms" کی سب سے بڑی کمزوری مل گئی ہے...."پیچھے سے کسی شخص نے اسکو مخاطب کیا..."اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور اپنے کام کو جاری رکھا.."ایک بار پھر اس شخص نے اسکو مخاطب کرنا چاہا"اس بار آواز کچھ زیادہ تیز تھی...."پھر سے نظرانداز کیا گیا....."اس شخص کو لگا.."ابھی بھی نہیں سنا ہوگا...."سر ر ر................! دھڑام م م.." اس شخص کے باقی کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئی تھے."کیونکہ" ZM" نے اس کے چہرے پر بہت تیزی سے مکّہ مارا تھا...... مکّہ لگنے کی وجہ سے اس شخص کے ہونٹ فٹ گئے تھے.."اور اُن میں سے خون رسنے لگا تھا... وہ شخص بس حیران نظروں سے اسکو دیکھ رہا تھا۔۔۔کیا تھا یہ آدمی کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا اس کو....."بلیو جینز، ریڈ شرٹ جس میں اسکا کسرتی بدن نمایاں ہو رہا تھا.." گول چہرا ،کھڑا ناک ،کالی خوبصورت جھیل سے بھی گہری آنکھیں، انابی لب اور سنہری بال جن کو اس نے ترتیب سے سیٹ کیا ہوا تھا .."دودھ جیتنا گورا رنگ.." فرینچ دھاڑی میں وہ بلکل فرینچ ہی لگتا تھا..."اس نے سرد مہری سے اس شخص کو دیکھا.."اُسکے آنکھوں سے آگ کے شعلے بھڑک رہے تھے.."اس کو دیکھ وہ شخص گھبرا گیا تھا..." کتنی بار سمجھایا ہے..."جب تک میں نہ بلاؤں مجھ سے کوئی بھی نا ملنے کی توقع کرے.."وہ جب بولا تو اُسکی آواز سے دیواریں بھی کامپ اٹھی تھی......" س سر..."چپ بلکل چُپ................."zm" نے اس شخص کو دہاڑ کر چُپ ہونے کو کہا تھا.." اچھا ہوا تم میرے خاص شخص ہو.."ورنہ آج اس غلطی کی سزا تمہاری موت ہوتی سمجھیں......"اب کیا کھڑے ہو یہاں پر دفاع ہو جاؤ میری نظروں کے سامنے سے"اور دو دن تک نظر بھی مت آنا...." وہ گرّاتیں بولا.."غصّے کی وجہ سے اُسکے گردن کی رگیں تن گئی تھی...."وہ ایسا ہی تھا.."دنیا کی ہر بُرائی اس میں تھی.."اسمگلنگ کرنا،قتل کرنا اُسکے لیے عام سی بات تھی..."وہ دن دھاڑے قتل کر دیتا اور اسکو بلکل بھی دکھ نہ ہوتا..."وہ اپنے آپ کو "ظالم" کہتا تھا...."اور اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ وہ "ظالم"تھا....."اس نے کبھی بھی اپنا نام کسی کو نہیں بتایا تھا..."گینگسٹر میں وہ سب کا ڈون تھا..." پورا ورلڈ اُس کے نام سے کانپتا تھا...." ان سب بُرائیوں کے باوجود اس میں ایک بات بہت اچھی تھی"اور وہ تھی وہ عورتوں کی بہت عزت کرتا تھا....."اس لیے اگر کوئی اس کے سامنے کسی بھی عورت پر ظُلم کرتا دکھتا...."وہ بغیر اس شخص کی دلیل سنے اسکا دھڑ سے سر الگ کر دیتا..."اس لیے اُسکے یہ اچھائی بھی بُرائیوں میں شامل ہو گئی تھی...."اور ہاں جاتے جاتے شیام کے ہاتھوں وہ فائل بھجوا دینا.."جس میں اس کمینے کی کمزوری ہے..." اس نے حکم صادر کیا.."اور آخر میں" ms" کا نام نا لے کر اسکو گالی سے نوازتا بولا...."zm" کے اندر انتقام کی آگ جل رہی تھی...."جو وہ انڈیا کو برباد کر کے لینا چاہتا تھا..."کیونکہ ماضی میں ایسا کچھ تو ہوا تھا.."جس کی وجہ سے ماضی کے اس حادثے نے اسکواتنا بُرا ظالم آدمی بننے پر مجبور کر دیا...."کیا تھا اسکا ماضی....؟کیا وہ انڈیا کو تباہ کر کے اپنا انتقام لے پائے گا...؟


   1
0 Comments